04-Feb-2022 لیکھنی کی کہانی -badalte رشتے
بدلتے رشتے ۔۔۔۔۔۔کہانی
اُردو مقابلہ ۔۔۔۔
لوگ بہت جلدی بدل جاتے ہے،میں نے صرف سنا تھا ،لیکِن آج دیکھ بھی لیا ہے ۔فرحان جو مجھ سے کہتا تھا ۔زینت لوگ کتنی جلدی بدل جاتے ہیں نا،
میں اس کی بات پر کہتی مجھے نہیں پتہ لوگ کیسے بدل جاتے ہیں،لیکِن تم کبھی مت بدلنا ،فرحان ہستا اور کہتا ،اچھا جو کہتا جو لوگوں کے بدلنے سے پریشان ہیں ،وہ کیسے بدل سکتا ہے ۔
فرحان مجھسے 10 سال بڑا تھا ،میں بہت چھوٹی تھی،ہم دونوں میں عمر کا بہُت فرق تھا۔
لیکن عشق بے حساب تھا ،فرحان بچوں کو دین کی تعلیم دیتا تھا،جب وہ بچوں کو پڑھانے جاتا ۔
اس وقت ہمارے اسکول کی چھٹّی ہوتی تھی ۔
وہ اس راستے سے جاتا تا کہ مجھے دیکھ سکے ۔
ہا لانکہ اُسکا راستہ بہُت لمبا ہو جاتا تھا۔
اس کی محبت اور میرا عشق اس قدر گہرا تھا ۔مانو جیسے عمر بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہینگے ۔
فرحان اچھا خاصہ سمجھدار اور قابل تھا ،
لیکن میری عمر کم تھی،میں مجاز سے تھوڑی چنچل تھی بچوں جیسی باتیں کرتی تھی ۔
وہ میری باتوں پر ہستا تھا،ہم دونوں نے کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ ہمارا عشق ایک دن ختم ہو جائیگا ۔جتنی محبت ہم دونوں میں تھی،ایسا لگتا تھا،رب ہمارے ساتھ ہو ۔
فرحان باہر جانا چاہتا تھا۔وہ ودیش جاکر پڑھنا چاہتا تھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ وہ باہر جائیگا میں اُداس ہو گئی تھی،میں بھی چاہتی تھی۔ وہ وہاں جائے۔
میں کیسے رہ پاونگی اُسکے بغیر ۔۔
لیکن عشق کا تو دستور ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔
میں نے اس سے کچھ نہیں کہا ۔
بس اتنا کہا اللہ تمہیں کامیاب کرے،اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا تھا،زندگی کا یہ پہلا لمحہ تھاجب میں نے اس کی دھڑکنوں کی آواز سنی تھی ۔اُسکی محبت آئینے کی طرح مجھے صاف نظر آرہی تھی ۔اتنا چین،آرام اور سکون ملا تھا،مجھے اس کے سینے سے لگ کر ۔فرحان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔اسکی آنکھیں۔ بھیگی دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیا تھا۔میں دوبارہ سے اُسکے سینے سے لگ گئی ۔یہ لمحہ ہم دونوں کے لیے بہت عجیب تھا ۔ہم ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے ۔کبھی پتہ ہی نہیں جُدائی کا ہوتی ہے ۔لیکِن آج دونوں کی آنکھیں نم تھیں ۔ایک دوسرے کو رب کے حوالے کر کے جدا ہو گئے۔
فرحان کے جانے کے بعد میری زندگی ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ٹھہر گئی تھی ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا ۔جیسے مجھے موت آگئی ہو ۔
اسکول سے آتے وقت مجھے یاد آتا مجھے فرحان ملتا تھا ۔اُسکا تصوّر میری آنکھیں گیلی کر دیتا تھا،ہر گلی ہر موڑ پر مجھے اس کی یاد آتی تھی ۔۔
نماز پڑھتی تو رو رو کر خدا سے دعا کرتی،اے میرے رب میرے فرحان کا خیال رکھنا ۔اس کو میری یاد نہ آئے جیسے مجھے آتی ہے ۔
اللہ کے سامنے جھولی پھیلا کر اُس کے لیے دعا مانگتی تھی ۔میرے پورے ذہن سے اس کا خیال کبھی نہیں جاتا تھا۔
میرے ہر ایک لمحے میں فرحان شامل تھا ۔جب کھانا کھاتی تو سوچتی پتہ نہیں فرحان نے کھانا کھایا ہو گا یا نہیں ۔جب امی اسکی پسند کی کوئی چیز بناتی تو میں نہیں کھا پاتی تھی ۔
میں اکیلے بیٹھ کر کیسے کھا لیتی ۔
ہم دونوں ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے ،وہ مجھے کھلاتا اور میں اسے،پیار کے لمحے جُدائی میں آنسو بن جاتے ہیں ۔
جیسے میرے بن گئے تھے ۔ایک ایک لمحہ میں نے فرحان کے آنے کا انتظار کیا تھا ،ہر ایک دن کو لکھ کر رکھتی تھی،آج اتنے دن رھ گئے کل سے اتنے دن رھ جائینگے ۔ایسی تھی بیتابی ۔۔۔۔۔
ایک دن فرحان آگیا وہ بہت خوبصورت ہو گیا تھا ۔بہُت بدل بھی گیا تھا،میں بیچین نگاہوں سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔
میرا دل دھڑک رہا تھا ۔سوچ رہی تھی جب فرحان آئیگا تو وہ مجھے اپنے سینے سے لگا لیگا ۔اور میں اس سے بولونگی اب کہیں مرجانا اب اور میں تمھاری جُدائی برداشت نہیں کر سکتی ہوں۔اُسکے بغیر جو میں نے ایک ایک لمحہ گزارا ہے ۔وہ کیسے گزارا ہے،سب فرحان کو بتانا چاہتی تھی ۔۔
لیکن مجھے کیا پتہ تھا ۔
میرا عشق اُس دن ختم ہو گیا تھا جس دن وہ پڑھنے گیا تھا۔
رات بھر میں سو نہیں پائی تھی فرحان کے آنے کی خوشی میں۔۔ہم دونوں کی محبت کو سارا جہاں جانتا تھا ۔خالہ نے مرتے وقت امی سے وعدہ کیا تھا ۔کہ وہ میری شادی فرحان سے کرینگی ۔
امی راضی نہیں تھی لیکِن اپنی مرتی ہوئی بہن سے وعدہ کر ہی لیا تھا۔
امی بھی جانتی تھی ،میں آج بہت خوش ہوں ۔
امی رات کو میرے پاس آئیں اور بولیں آج میری بیٹی بہُت خوش ہے ۔میں مُسکرا گئی تھی ،
امی بولیں کل فرحان کے ابّو آرہے ہے ۔اچھے سے تیار رہنا ،اتنا کہہ کر امی چلی گئیں ۔
میں نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اپنے رب سے کہا یااللہ مجھے کتنی خوشیاں دیگا۔کہیں خوشی کے مارہے میں مر نہ جاؤں ۔۔
صبح ہوئی بہُت سارے انتظامات ہونے لگے ۔
میں تیار ہو گئی تھی ۔آئینے کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی ۔اتنے میں میری امی آگئیں اور بولیں بیٹا تمہاری فرحان سے بات ہوئی ہے ۔۔۔
میں نے کہا امی میری فرحان سے بات ہوئی اُنہونے مجھسے کہا کیا بات ہوئی ۔
میں نے امی سے کہا امی میں فرحان سے شادی نہیں کرنا چاہتی،امی نے میری طرف غصے سے دیکھا مگر کیوں نہیں کرنا چاہتی تم فرحان سے شادی ۔کل تک تو تم بہت خوش تھی آج کیا ہو گیا تمہیں ۔امی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں میرے بچّے کوئی پریشانی ہے تو ہمیں بتاؤ ۔
میں نے امی سے کہا امی سچ میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔میں سچ کہہ رہی ہوں ۔
میں فرحان سے شادی نہیں کرنا چاہتی ،امی نے مجھسے کہا میں نے تمہاری خالہ کو زبان دی ہے ۔
میں نے سخت لہجےمیں امی سے کہا کیا چاہتی ہو مرے ہوئے لوگوں کی وجہ سے تم زندہ لوگوں کی خوشیوں کو تباہ کر دو ۔۔
میں بتا رہی ہوں،میں فرحان سے شادی نہیں کرونگی ۔اتنا کہہ کر میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
میں اتنا روئی تھی کیا بتاؤں ،آج ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے موت آجائے ،میں جینا نہیں چاہتی تھی ۔
مر جانا چاہتی تھی ۔ میں نے اپنی امی سے بہت بد تمیزی سے بات کی تھی ۔
میں اللہ سے موت مانگ رہی تھی ،بابا کے بعد میری امی تھی میری زندگی میں لیکن میں نے ان سے اتنی بد تمیزی سے بات کی تھی ۔
میں اپنے آپ سے نظر نہیں ملا پا رہی تھی ۔
آج میرے پاس کچھ نہیں بچا تھا ۔بچپن کی محبت فرحان جسکی جدائی کا زہر ہر ایک دن پی کر خود کو زندہ رکھا آج اس نے مار دیا تھا ۔۔
میں نے اپنا سامان باندھا اور کہیں دور چلی گئی جہاں فرحان کی یادیں نہ ہوں ۔اُن لمحہ اُن تصوّر سے بہت دور ۔۔
گھر میں ایک خط چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔
جس کو پڑھنےکے بعد امی نے مجھے کہیں بھی ڈھونڈا اُن کے لیے میں مر گئی تھی ۔اُنہونے مجھ پر صبر کر لیا تھا ۔
میں اکیلی نہ منزل کا پتہ تھا ،نہ راستوں کا چلی جا رہی تھی ۔
راستے میں اتنی مصیبتیں آئیں سوچا خودکشی کر لوں لیکِن خود خودکشی حرام تھی ۔
جینا تھا میں نے ۔۔۔
میری چپل ٹوٹ گئی تھی ،پیرو سے خون بہا جا رہا تھا میں لڑکھڑاتی ہوئی ایک جگہ سڑک پر بیٹھ گئی تھی ،اور اچانک بے ہوش ہو گئی ۔۔۔
جب میری آنکھ کھلی تو ایک خوبصورت سے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی ۔بےحد خوبصورت تھا ۔دیواروں پر بچوں کی تصویرے لگی ہوئی تھی۔
بہت بہت پیارے بچے ۔
تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت سا شخص میرے پاس آیا اور بولا کیسی ہو آپ میں اسے دیکھے جا رہی تھی ،اس نے مجھے ہلایا اور بولا ،آپ ٹھیک تو ہیں نہ،میں نے کہا میں یہاں کیسے اُس نے کہا آپ مجھے سڑک پر پڑی ملیں تھیں آپ بیہوش تھیں،میں آپکو گھر لے آیا،میں بستر سے اٹھنے لگی اس نے مجھے روکا ارے آپ کہا جا رہی ہیں۔
آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ آرام کریں ۔۔
میں نے کہا نہیں میں ٹھیک ہوں ۔
اس نے مجھے دوائی دی اور بولا آپ ابھی آرام کریۓ۔جب آپ بلکل ٹھیک ہو جایئںگی تب آپ چلی جانا۔۔
میں نے اس کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہا تھا ۔
میں نے اس سے پوچھا بچّے آپ کے ہیں ۔۔
اس نے کہا یہ بچّے میری بہن کے ہیں ۔
میں نے پوچھا بہن کے آپ کی بہن کہاں ہیں۔
وہ یہں رہتی ہیں ۔وہ میری بات کا جواب دیے بنا چلا گیا تھا ۔
میں نیچے چلی گئی گھومتے گھومتے ۔گارڈن میں بچّے کھیل رہے تھے اُنہونے مجھے دیکھا اور فوراً میرے گلے لگ گئے ۔۔
میں نے بھی انہیں چپٹا لیا تھا ۔
یونہی گلے لگا کر میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں ۔۔
مجھے اُن بچوں پر پیار آنے لگا تھا ۔۔۔
اب میں وہاں رہنے لگی تھی ۔میرا پورا دن بچوں کے ساتھ گزرتا تھا ۔۔
اُن کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے میں اور ذیشان خوب ہستے ہیں ۔
ہماری زندگی گلزار بن گئی تھی ۔۔
سب تنہا تنہا تھے،اب سب کے دلوں کے زخم بھرنے لگے تھے،۔۔
میں اپنے پرانے زخموں کو بھول گئی تھی اُن معدوم بچوں کی وجہ سے میں اب ہسنا سیکھ گئی تھی ۔
ہم سب الگ الگ گلشن کے پھول تھے ۔لیکِن اب ہنسی خوشی سے ایک ہو گئے تھے ۔۔۔۔
Dua Abbas
15-Feb-2022 04:27 PM
Good
Reply
Anjana
04-Feb-2022 08:13 PM
Bahut khoob
Reply
Simran Bhagat
04-Feb-2022 06:33 PM
Very nyc 🥰
Reply